یہ شہر اپنی اسی ہاؤ ہو سے زندہ ہے
تمہاری اور مری گفتگو سے زندہ ہے
کچھ اس قدر بھی برائی نہیں ہے مذہب میں
جہان کلمۂ لا تقنطو سے زندہ ہے
ہم اپنی نفس کشی کی طرف نہیں مائل
کہ اپنا جسم تو بس آرزو سے زندہ ہے
اب اس کے بعد بتائیں تو کیا بتائیں ہم
تمام قصۂ من ہے کہ تو سے زندہ ہے
ہم اس کے بعد بھی سرگرم زندگی ہیں کہ دل
بس ایک قطرۂ تازہ لہو سے زندہ ہے

غزل
یہ شہر اپنی اسی ہاؤ ہو سے زندہ ہے
تالیف حیدر