EN हिंदी
یہ شہر آفتوں سے تو خالی کوئی نہ تھا | شیح شیری
ye shahr aafaton se to Khaali koi na tha

غزل

یہ شہر آفتوں سے تو خالی کوئی نہ تھا

تابش کمال

;

یہ شہر آفتوں سے تو خالی کوئی نہ تھا
جب ہم سخی ہوئے تو سوالی کوئی نہ تھا

لکھا ہے داستاں میں کہ گلشن اجڑتے وقت
گلچیں بے شمار تھے مالی کوئی نہ تھا

اس دشت میں مرا ہی ہیولیٰ تھا ہر طرف
میں نے ہی شمع عشق جلا لی کوئی نہ تھا

جلسے اجڑ گئے تھے کسی خود فریب کے
خود ہی بجا رہا تھا وہ تالی کوئی نہ تھا

تابشؔ ہر ایک دل میں شرارے تھے قہر کے
ہو پاس جس کے سوز بلالی کوئی نہ تھا