یہ شہر آفتوں سے تو خالی کوئی نہ تھا
جب ہم سخی ہوئے تو سوالی کوئی نہ تھا
لکھا ہے داستاں میں کہ گلشن اجڑتے وقت
گلچیں بے شمار تھے مالی کوئی نہ تھا
اس دشت میں مرا ہی ہیولیٰ تھا ہر طرف
میں نے ہی شمع عشق جلا لی کوئی نہ تھا
جلسے اجڑ گئے تھے کسی خود فریب کے
خود ہی بجا رہا تھا وہ تالی کوئی نہ تھا
تابشؔ ہر ایک دل میں شرارے تھے قہر کے
ہو پاس جس کے سوز بلالی کوئی نہ تھا

غزل
یہ شہر آفتوں سے تو خالی کوئی نہ تھا
تابش کمال