یہ شفق شام ہو رہی ہے اب
اور ہر گام ہو رہی ہے اب
جس تباہی سے لوگ بچتے تھے
وہ سر عام ہو رہی ہے اب
عظمت ملک اس سیاست کے
ہاتھ نیلام ہو رہی ہے اب
شب غنیمت تھی لوگ کہتے ہیں
صبح بدنام ہو رہی ہے اب
جو کرن تھی کسی دریچے کی
مرکز بام ہو رہی ہے اب
تشنہ لب تیری پھسپھساہٹ بھی
ایک پیغام ہو رہی ہے اب
غزل
یہ شفق شام ہو رہی ہے اب
دشینتؔ کمار