EN हिंदी
یہ شفق شام ہو رہی ہے اب | شیح شیری
ye shafaq sham ho rahi hai ab

غزل

یہ شفق شام ہو رہی ہے اب

دشینتؔ کمار

;

یہ شفق شام ہو رہی ہے اب
اور ہر گام ہو رہی ہے اب

جس تباہی سے لوگ بچتے تھے
وہ سر عام ہو رہی ہے اب

عظمت ملک اس سیاست کے
ہاتھ نیلام ہو رہی ہے اب

شب غنیمت تھی لوگ کہتے ہیں
صبح بدنام ہو رہی ہے اب

جو کرن تھی کسی دریچے کی
مرکز بام ہو رہی ہے اب

تشنہ لب تیری پھسپھساہٹ بھی
ایک پیغام ہو رہی ہے اب