یہ سودا عشق کا آسان سا ہے
ذرا بس جان کا نقصان سا ہے
بہا کر لے گیا ہوش و خرد کو
یہ سیل عشق بھی طوفان سا ہے
وہی جو سب کے غم میں گھل رہا ہے
ہمارے حال سے انجان سا ہے
خدا اس کو زمانے سے بچائے
ابھی یہ آدمی انسان سا ہے

غزل
یہ سودا عشق کا آسان سا ہے
فاروق بخشی