یہ سرکاری شفا خانے میں جو بیمار لیٹے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار لیٹے ہیں
کسی کو کیا پتہ ہم جھانکتے رہتے ہیں موری سے
بظاہر اک ہونق ہیں پس دیوار لیٹے ہیں
ہمارے عشق اور ان کے تغافل کا یہ عالم ہے
کہ ہم دل ہار بیٹھے ہیں وہ لینے ہار لیٹے ہیں
یونہی شام و سحر رہتا ہے نقشہ ان کی محفل کا
ادھر دس پانچ بیٹھے ہیں ادھر دو چار لیٹے ہیں
غزل
یہ سرکاری شفا خانے میں جو بیمار لیٹے ہیں
انور بریلوی