EN हिंदी
یہ سرابوں کی شرارت بھی نہ ہو تو کیا ہو | شیح شیری
ye sarabon ki shararat bhi na ho to kya ho

غزل

یہ سرابوں کی شرارت بھی نہ ہو تو کیا ہو

سجاد بلوچ

;

یہ سرابوں کی شرارت بھی نہ ہو تو کیا ہو
آنکھ میں حیرت و وحشت بھی نہ ہو تو کیا ہو

ہم کہ اس ہجر کے صحرا میں پڑے ہیں کب سے
خیمۂ خواب رفاقت بھی نہ ہو تو کیا ہو

شکر کر حجرۂ تنہائی میں بیٹھے ہوئے شخص
خود سے ملنے کی یہ مہلت بھی نہ ہو تو کیا ہو

میں وہ محروم زمانہ کہ کبھی سوچتا ہوں
سانس لینے کی سہولت بھی نہ ہو تو کیا ہو

سوچتا ہوں میں سر دشت اڑاتا ہوا دھول
تیری یادوں کی عنایت بھی نہ ہو تو کیا ہو