یہ صحرا میرا ہے جھیلم چناب اس کی طرف
تراب میری طرف اور آب اس کی طرف
نہ جانے کس نے بنائی ہے دوغلی تصویر
ہیں خار میری طرف اور گلاب اس کی طرف
زبان میری ہے الفاظ ہیں مرے لیکن
ہے بات چیت کا لب و لباب اس کی طرف
مری غزل کے مقدر میں پیاس آئی ہے
کشید کی ہوئی عمدہ شراب اس کی طرف
کوئی معمہ کبھی اس طرح بھی ہو مولا
سوال میری طرف ہوں جواب اس کی طرف
یوں اپنا نامۂ اعمال کر لیا تقسیم
گناہ میری طرف ہیں ثواب اس کی طرف
ضرور پوچھوں گا تقسیم کرنے والے سے
رکھا ہے کس لیے سارا شباب اس کی طرف
کسی نے نام سے میرے اچھالا جب پتھر
ابھرنے لگ گیا اک انقلاب اس کی طرف
جو خود سے پوچھا کہ فانیؔ میں جاؤں کس رستے
اشارا کرنے لگی ہے رکاب اس کی طرف
غزل
یہ صحرا میرا ہے جھیلم چناب اس کی طرف
فانی جودھپوری