EN हिंदी
یہ روز و شب کی مسافت یہ آنا جانا مرا | شیح شیری
ye roz-o-shab ki masafat ye aana jaana mera

غزل

یہ روز و شب کی مسافت یہ آنا جانا مرا

طارق قمر

;

یہ روز و شب کی مسافت یہ آنا جانا مرا
بہت سے شہروں میں بکھرا ہے آب و دانہ مرا

نہیں پسند مرے تنگ ذہن قاتل کو
یہ حرف شکر یہ خنجر پہ مسکرانا مرا

عجیب رد عمل تھا وہ روشنی کے خلاف
جلا جلا کے چراغوں کو خود بجھانا مرا

یہ چند لوگ مرے آس پاس بیٹھے ہوئے
یہی کمائی ہے میری یہی خزانہ مرا

کہاں اتاروں جنازے کو زندگی تیرے
کہ اس کے بوجھ سے شل ہو چکا ہے شانہ مرا

ذرا سی بات پہ گھر چھوڑ کر چلے آنا
پھر اس کے بعد کبھی لوٹ کر نہ جانا مرا

یہ بات تو مری زنجیر پا بھی جانتی ہے
بڑے شریف گھرانوں میں تھا گھرانا مرا

مزاج اپنا ملا ہی نہیں زمانے سے
نہ میں ہوا کبھی اس کا نہ یہ زمانہ مرا

امیر شہر کو بھی قتل کر گیا طارقؔ
فراز دار پہ آ کے یہ مسکرانا مرا