یہ ریگ رواں یاد دہانی تو نہیں کیا
صحرا کسی دریا کی نشانی تو نہیں کیا
دیکھو مرا کردار کہیں پر بھی نہیں ہے
دیکھو یہ کوئی اور کہانی تو نہیں کیا
روشن ہے نیا عکس سر چشم تماشہ
بیتے ہوئے منظر کی روانی تو نہیں کیا
اس گھر کے در و بام بھی اپنے نہیں لگتے
قسمت میں نئی نقل مکانی تو نہیں کیا
خوابوں پہ پڑی اوس کا مطلب تو یہی ہے
اشکوں کے جو شعلے وہ تھے پانی تو نہیں کیا
میں مصرع اولیٰ ہوں تو آئینے میں صاحب
جو عکس ہے وہ مصرع ثانی تو نہیں کیا
پوچھوں گا کسی روز چراغوں سے میں احمدؔ
یہ لو کوئی پیغام زبانی تو نہیں کیا
غزل
یہ ریگ رواں یاد دہانی تو نہیں کیا
آفتاب احمد