EN हिंदी
یہ رنگ و نور بھلا کب کسی کے ہاتھ آئے | شیح شیری
ye rang-o-nur bhala kab kisi ke hath aae

غزل

یہ رنگ و نور بھلا کب کسی کے ہاتھ آئے

میکش اکبرآبادی

;

یہ رنگ و نور بھلا کب کسی کے ہاتھ آئے
کدھر چلے ہیں اندھیرے یہ ہاتھ پھیلائے

خدا کرے کوئی شمعیں لیے چلا آئے
دھڑک رہے ہیں مرے دل میں شام کے سائے

کہاں وہ اور کہاں میری پر خطر راہیں
مگر وہ پھر بھی مرے ساتھ دور تک آئے

میں اپنے عہد میں شمع مزار ہو کے رہا
کبھی نہ دیکھ سکے مجھ کو میرے ہم سایے

چلے چلو کہ بتا دے گی راہ خود رستے
کہاں ہے وقت کہ کوئی کسی کو سمجھائے

حرم کی آبرو ہم نے بہت رکھی پھر بھی
کئی چراغ صنم خانے میں جلا آئے

میں اپنے دل کو تو تسکین دے بھی لوں میکشؔ
وہ مضطرب ہے بہت کون اس کو سمجھائے