یہ رات تمہاری ہے چمکتے رہو تارو
وہ آئیں نہ آئیں مگر امید نہ ہارو
شاید کسی منزل سے کوئی قافلہ آئے
آشفتہ سرو صبح تلک یوں ہی پکارو
دن بھر تو چلے اب ذرا دم لے کے چلیں گے
اے ہم سفرو آج یہیں رات گزارو
یہ عالم وحشت ہے تو کچھ ہو ہی رہے گا
منزل نہ سہی سر کسی دیوار سے مارو
اوجھل ہوئے جاتے ہیں نگاہوں سے دو عالم
تم آج کہاں ہو غم فرقت کے سہارو
کھویا ہے اسے جس کا بدل کوئی نہیں ہے
یہ بات مگر کون سنے لاکھ پکارو
غزل
یہ رات تمہاری ہے چمکتے رہو تارو
ناصر کاظمی