یہ رات دن کا بدلنا نظر میں رہتا ہے
ہمارا ذہن مسلسل سفر میں رہتا ہے
نظر میں اس کی تو وسعت ہے آسمانوں کی
گو دیکھنے کو پرندہ شجر میں رہتا ہے
ہمارا نام وہ لے لے تو لوگ چونک اٹھیں
کہ فرد فرد ہمارے اثر میں رہتا ہے
شجر شجر جو ثمر ہے تو دیکھ خود کو بھی
جہان نو کا تصور ثمر میں رہتا ہے
ہر ایک بات کا بالکل یقین آیا مگر
ہمارا خوف تمہارے اگر میں رہتا ہے
تجھے گماں ہے کہ منزل پہ تو پہنچ بھی گیا
ہر ایک شخص یہاں رہ گزر میں رہتا ہے
اسے سکون ہے اس سے کہ ہم کو چین نہیں
بس اک جنون ہماری خبر میں رہتا ہے
نہیں ہے کچھ بھی وہ اے سعدؔ بس خیال سا ہے
مگر خیال کا سودا تو سر میں رہتا ہے
غزل
یہ رات دن کا بدلنا نظر میں رہتا ہے
سعد اللہ شاہ