یہ رات بھیانک ہجر کی ہے کاٹیں گے بڑے آلام سے ہم
ٹلنے کی نہیں یہ کالی بلا سمجھے ہوئے تھے شام سے ہم
جب قیس پہاڑ اس سر سے ٹلے عید آئی تب آئی جان میں جان
تا دیر عجب عالم میں رہے ہونٹوں کو ملائے جام سے ہم
تھا موت کا کھٹکا جاں فرسا صد شکر کہ نکلا وہ کانٹا
گر ہو نہ قیامت کا دھڑکا اب تو ہیں بڑے آرام سے ہم
تامنزل جاناں ساتھ رہا کم بخت تصور غیروں کا
شوق اپنے قدم کھینچا ہی کیا پلٹا ہی کیے ہر گام سے ہم
الفت نے انہیں کی حق کی طرف پھیرا مرے دل کو شکر خدا
تعمیر کریں مسجد کوئی کیونکر نہ بتوں کے نام سے ہم
اے ہم نفسو دم لینے دو بھولے ہوئے نغمے یاد آ لیں
آئے ہیں چمن میں اڑ کے ابھی چھوٹے ہیں اسی دم دام سے ہم
باتوں میں گزرتے ہجر کے دن اے کاش کہ دونوں مل جاتے
ہم سے ہے دل ناکام خفا آزردہ دل ناکام سے ہم
یوں ان کے ادب یا خاطر سے ہر بات کو لے لیں اپنے سر
جب دل ہے انہیں کے قابو میں پھر پاک ہیں ہر الزام سے ہم
وہ سمجھے کہ ہم نے مار لیا ہم سمجھے ملیں گے آخر وہ
ملتے ہی نگہ کے دونوں خوش آغاز سے وہ انجام سے ہم
دنیا میں تخلص کوئی نہ تھا کیا نیل کا ٹیکا شادؔ ہی تھا
تم وجہ نہ پوچھو کچھ اس کی چڑھ جاتے ہیں کیوں اس نام سے ہم
غزل
یہ رات بھیانک ہجر کی ہے کاٹیں گے بڑے آلام سے ہم
شاد عظیم آبادی