یہ قطرۂ شبنم نہیں اے سوز جگر آج
ڈوبی ہوئی آئے ہے پسینوں میں سحر آج
بے وجہ نہیں فطرت شوخی کا گزر آج
تم آنکھ ملا کر جو چراتے ہو نظر آج
وہ آئے عیادت کو تو آئی ہے قضا بھی
مہماں ہوئے اک وقت میں دو دو مرے گھر آج
ارمان نکلنے دیے کس سوختہ دل کا
ہے وصل کی شب بول نہ اے مرغ سحر آج
وہ کعبۂ دل توڑتے ہیں سنگ جفا سے
برباد ہوا جاتا ہے اللہ کا گھر آج
ہر اشک کے دامن میں ہے اک منظر طوفاں
کیا ڈوب ہی جائے گی یہ کشتئ نظر آج
ڈوبی ہوئی نبضیں یہ پتہ دیتی ہیں مجھ کو
اے اوجؔ نہ ہوگی شب فرقت کی سحر آج
غزل
یہ قطرۂ شبنم نہیں اے سوز جگر آج
راج بہادر سکسینہ اوجؔ