یہ قدم قدم کشاکش دل بیقرار کیا ہے
جو یقیں نہ ہو عمل پر تو نشاط کار کیا ہے
بخدا نسیم گلشن تری وحشتوں کے صدقے
یہ مزاج نامہ بر ہے تو مزاج یار کیا ہے
وہ کرم نہ ہو ستم ہو کوئی بات کم سے کم ہو
یہ ادائے بے نیازی مرے غم گسار کیا ہے
یہ ہم اہل غم کی منزل ہے دبے قدم گزر جا
کہ اجل یہاں کے فتنوں میں ترا شمار کیا ہے
ابھی آ کے نغمۂ دل کی بہار دیکھ جاؤ
میں نوائے خود شکن ہوں مرا اعتبار کیا ہے

غزل
یہ قدم قدم کشاکش دل بیقرار کیا ہے
وارث کرمانی