EN हिंदी
یہ قدم قدم کشاکش دل بیقرار کیا ہے | شیح شیری
ye qadam qadam kashakash dil be-qarar kya hai

غزل

یہ قدم قدم کشاکش دل بیقرار کیا ہے

وارث کرمانی

;

یہ قدم قدم کشاکش دل بیقرار کیا ہے
جو یقیں نہ ہو عمل پر تو نشاط کار کیا ہے

بخدا نسیم گلشن تری وحشتوں کے صدقے
یہ مزاج نامہ بر ہے تو مزاج یار کیا ہے

وہ کرم نہ ہو ستم ہو کوئی بات کم سے کم ہو
یہ ادائے بے نیازی مرے غم گسار کیا ہے

یہ ہم اہل غم کی منزل ہے دبے قدم گزر جا
کہ اجل یہاں کے فتنوں میں ترا شمار کیا ہے

ابھی آ کے نغمۂ دل کی بہار دیکھ جاؤ
میں نوائے خود شکن ہوں مرا اعتبار کیا ہے