یہ نیم باز تری انکھڑیوں کے میخانے
نظر ملے تو چھلک جائیں دل کے پیمانے
شراب شوق سے بوجھل لبوں کے پیمانے
تری نگاہ کو ایسے میں کون پہچانے
کہیں کلی نے تبسم کا راز سمجھا ہے
جو خود چمن ہے وہ اپنی بہار کیا جانے
جو ہوش میں تھا تو کوئی نہ مے بجام آیا
بہک گیا ہوں تو دنیا چلی ہے سمجھانے
عجب نہیں جو محبت مجھے سمجھ نہ سکے
وہ اجنبی ہوں جسے زیست بھی نہ پہچانے
یہیں سجود محبت کی بستیاں تھیں کبھی
بتا رہے ہیں یہ دیر و حرم کے ویرانے
کہیں چراغ جلانے کی ہو رہی ہے سبیل
بجھا رہے ہیں یہاں شمع خود ہی پروانے
فریب مشرق و مغرب ہیں رہروان جدید
یہ بد نصیب نہ عاقل ہوئے نہ دیوانے
وہ زندہ ہے جو بہے موج وقت کی رو میں
وہ زندہ تر ہے جو طوفاں میں ٹھیرنا جانے
میں اپنی بزم سے اتنا ہی دور ہوں کہ نشورؔ
مری نواؤں سے کچھ آشنا ہیں بیگانے
غزل
یہ نیم باز تری انکھڑیوں کے میخانے
نشور واحدی