یہ نظم گریزاں ہے برہم زدنی پہلے
زاہد کی کی طرف سے ہو توبہ شکنی پہلے
پھولوں کے تبسم پر رونا ابھی آتا ہے
دیکھی ہے ان آنکھوں نے ویراں چمنی پہلے
یوں حسن کے چہرے پر آئی نہیں برنائی
سو شام کے پردوں میں اک صبح چھنی پہلے
معلوم کسے آخر اس خاک تمنا سے
پروانہ اٹھا پہلے یا شمع بنی پہلے
یہ عیش کے ہنگامے اڑتے ہوئے بادل ہیں
ہوتی ہے نگاہوں میں ہر چھاؤں گھنی پہلے
اک نیم تبسم سے ہوتا ہے چمن زندہ
ایسی نفسی سیکھے غنچہ دہنی پہلے
ہر نغمہ نشورؔ اب بھی ممنون تغزل ہے
سکھلائی غزل نے ہی شیریں سخنی پہلے

غزل
یہ نظم گریزاں ہے برہم زدنی پہلے
نشور واحدی