یہ نقش ایسا نہیں ہے جسے مٹاؤں میں
مجھے بتا کہ تجھے کیسے بھول جاؤں میں
کوئی لکیر ہی روشن نہیں ہتھیلی پر
نجومیوں کو بھلا ہاتھ کیا دکھاؤں میں
بجھا بجھا سا نظر آ رہا ہے ہر کوئی
فسانۂ غم ہستی کسے سناؤں میں
یقیں کرو کہ مری جیت پھر یقینی ہے
مگر کہو تو یہ بازی بھی ہار جاؤں میں
نظر کے سامنے منزل کے راستے ہیں بہت
یہ سوچتا ہوں قدم کس طرف بڑھاؤں میں
یہ بات سچ ہے کہ بنیاد ہوں عمارت کی
یہ اور بات کسی کو نظر نہ آؤں میں
غم زمانہ سے فرصت کہاں اثرؔ صاحب
دعا کو ہاتھ جو اپنے لئے اٹھاؤں میں
غزل
یہ نقش ایسا نہیں ہے جسے مٹاؤں میں
محفوظ اثر