یہ نہیں کثرت آلام سے جل جاتے ہیں
دل تمنائے خوش انجام سے جل جاتے ہیں
ان سے پوچھے کوئی مفہوم حیات انساں
مقبروں میں جو دیئے شام سے جل جاتے ہیں
ذکر آتا ہے مرا اہل محبت میں اگر
میرے احباب مرے نام سے جل جاتے ہیں
شمع جلتی ہے تو رو دیتی ہے سوز غم سے
اور پروانے تو آرام سے جل جاتے ہیں
شعلۂ برق سے ہم راہ نشیمن اکثر
گلستاں گردش ایام سے جل جاتے ہیں
غزل
یہ نہیں کثرت آلام سے جل جاتے ہیں
فطرت انصاری