یہ نہیں کہتا کہ دوبارہ وہی آواز دے
کوئی آسانی تو پیدا کر کوئی آواز دے
میں اسے سن کر بھی آنے کا نہیں مجبور ہوں
پھر بھی اپنے خواب خانے سے کبھی آواز دے
ہو سکے دونوں زمانوں میں ہم آہنگی کوئی
میں پرانا ہوں تو کیا مجھ کو نئی آواز دے
موت کے ساحل پر استادہ ہوں تو مجھ کو کہیں
زندگی کے پانیوں میں ڈوبتی آواز دے
ٹھیک ہے تو نے پکارا ہوگا جس تس کو مگر
میرے حصے میں کوئی آئی ہوئی آواز دے
بن بلایا ہی چلا آؤں گا میں شاید کبھی
لیکن اتنے شور میں تو آپ بھی آواز دے
میں اسے پہچان ہی پاؤں نہ پہلی بار تو
کوئی آوازوں کے جنگل میں گھری آواز دے
منہ سے کچھ کہہ تو سہی اس خامشی کے آر پار
مستقل کو چھوڑ کوئی سرسری آواز دے
تو نے تو ہر حال میں سننا ہے اب تجھ کو ظفرؔ
روشنی آواز دے یا تیرگی آواز دے
غزل
یہ نہیں کہتا کہ دوبارہ وہی آواز دے
ظفر اقبال