EN हिंदी
یہ نہ سمجھو کہ کسی درد کے اظہار میں تھی | شیح شیری
ye na samjho ki kisi dard ke izhaar mein thi

غزل

یہ نہ سمجھو کہ کسی درد کے اظہار میں تھی

نصرت مہدی

;

یہ نہ سمجھو کہ کسی درد کے اظہار میں تھی
آرزو وقت کے ٹوٹے ہوئے پندار میں تھی

جانے کیا ڈھونڈھتا پھرتا تھا یہاں میرا وجود
اک اداسی مرے گھر کے در و دیوار میں تھی

میری تخئیل میں الفاظ کی زنجیریں تھیں
زندگی ورنہ زمانے تری رفتار میں تھی

کرتی پھرتی تھی اجالوں کی قبا میری تلاش
اور میں تھی کہ اندھیروں کے کسی غار میں تھی

لوگ سمجھے ہی نہیں میرے ہنر کو ورنہ
مجھ میں فن کار تھا پوشیدہ میں فن کار میں تھی