یہ ممکن ہے کہ مل جائیں تری کھوئی ہوئی چیزیں
قرینے سے سجا کر رکھا ذرا بکھری ہوئی چیزیں
کبھی یوں بھی ہوا ہے ہنستے ہنستے توڑ دی ہم نے
ہمیں معلوم تھا جڑتی نہیں ٹوٹی ہوئی چیزیں
زمانے کے لئے جو ہیں بڑی نایاب اور مہنگی
ہمارے دل سے سب کی سب ہیں وہ اتری ہوئی چیزیں
دکھاتی ہیں ہمیں مجبوریاں ایسے بھی دل اکثر
اٹھانی پڑتی ہیں پھر سے ہمیں پھینکی ہوئی چیزیں
کسی محفل میں جب انسانیت کا نام آیا ہے
ہمیں یاد آ گئی بازار میں بکتی ہوئی چیزیں
غزل
یہ ممکن ہے کہ مل جائیں تری کھوئی ہوئی چیزیں
ہستی مل ہستی