یہ مجھ سے پوچھتے ہیں چارہ گر کیوں
کہ تو زندہ تو ہے اب تک مگر کیوں
جو رستہ چھوڑ کے میں جا رہا ہوں
اسی رستے پہ جاتی ہے نظر کیوں
تھکن سے چور پاس آیا تھا اس کے
گرا سوتے میں مجھ پر یہ شجر کیوں
سنائیں گے کبھی فرصت میں تم کو
کہ ہم برسوں رہے ہیں در بہ در کیوں
یہاں بھی سب ہیں بیگانہ ہی مجھ سے
کہوں میں کیا کہ یاد آیا ہے گھر کیوں
میں خوش رہتا اگر سمجھا نہ ہوتا
یہ دنیا ہے تو میں ہوں دیدہ ور کیوں
غزل
یہ مجھ سے پوچھتے ہیں چارہ گر کیوں
جاوید اختر