یہ محبت کا وار ہے صاحب
دل بڑا سوگوار ہے صاحب
ہر طرف لوگ چھاؤں کے دشمن
اور شجر سایہ دار ہے صاحب
کیوں مرا دل خزاں رسیدہ ہے
ہر طرف تو بہار ہے صاحب
پاؤں رکھنا سنبھل سنبھل کے یہاں
حسرتوں کا مزار ہے صاحب
کیا عجب ہے کہ ہم کو خود پہ نہیں
آپ پر اعتبار ہے صاحب
پہلا مقصد ہے کھیلنا تم سے
ثانوی جیت ہار ہے صاحب
پاؤں حالات کی گرفت میں ہیں
عشق سر پر سوار ہے صاحب
غم سے رشتہ بہت پرانا ہے
میرے بچپن کا یار ہے صاحب
آپ انصرؔ کو جانتے ہی نہیں
یہ تو یاروں کا یار ہے صاحب

غزل
یہ محبت کا وار ہے صاحب
راشد قیوم انصر