EN हिंदी
یہ محبت ہے محبت سرگرانی ہو تو کیا | شیح شیری
ye mohabbat hai mohabbat sargirani ho to kya

غزل

یہ محبت ہے محبت سرگرانی ہو تو کیا

کلیم احمدآبادی

;

یہ محبت ہے محبت سرگرانی ہو تو کیا
شدت غم سے جگر کا خون پانی ہو تو کیا

روح بن کر میری رگ رگ میں سرایت کر گیا
ایسے درد دل کی کوئی ترجمانی ہو تو کیا

سرد ہو سکتا نہیں سرگرم انساں کا لہو
حادثات نو بہ نو میں زندگانی ہو تو کیا

اپنا جینا ایک دھوکا اپنا مرنا اک فریب
زندگی سے زندگی کی ترجمانی ہو تو کیا

ہر طرح خوش خوش رہی ہے مجھ سے میری زندگی
مہربانی ہو تو کیا نا مہربانی ہو تو کیا

غم نتیجہ ہے خوشی کی انتہا کا اے کلیمؔ
دل کی اک اک موج موج شادمانی ہو تو کیا