یہ معجزہ بھی کسی روز کر ہی جانا ہے
ترے خیال سے اک دن گزر ہی جانا ہے
نہ جانے کس لیے لمحوں کا بوجھ ڈھوتے ہیں
یہ جانتے ہیں کہ اک دن تو مر ہی جانا ہے
وہ کہہ رہا تھا نبھائے گا پیار کی رسمیں
میں جانتا تھا کہ اس نے مکر ہی جانا ہے
ہوائے شام کہاں لے چلی زمانے کو
ذرا ٹھہر کہ ہمیں بھی ادھر ہی جانا ہے
میں خواب دیکھتا ہوں اور شعر کہتا ہوں
ہنر وروں نے اسے بھی ہنر ہی جانا ہے
غزل
یہ معجزہ بھی کسی روز کر ہی جانا ہے
آصف شفیع