EN हिंदी
یہ مری روح سیہ رات میں نکلی ہے کہاں | شیح شیری
ye meri ruh siyah raat mein nikli hai kahan

غزل

یہ مری روح سیہ رات میں نکلی ہے کہاں

رؤف رضا

;

یہ مری روح سیہ رات میں نکلی ہے کہاں
بدن عشق سے آگے کوئی بستی ہے کہاں

تم نے نذرانے گزارے تھے کہاں بانٹ دیئے
ساتھ جو عمر گزاری تھی وہ رکھ دی ہے کہاں

میرے اعصاب پہ لہراتی ہوئی شاخ گلاب
آج وہ ہاتھ ہلاتی ہوئی لڑکی ہے کہاں

ایک ہی چاند کو تکتا ہوا بے نام پڑوس
ایک ہی چاند دکھاتی ہوئی کھڑکی ہے کہاں

نفع و نقصان سے منہ موڑے ہوئے بیٹھی ہے
میری مغرور تمنا مری سنتی ہے کہاں

پہلے سر کی یہ شکایت تھی فلک اونچا ہے
اب مرے پاؤں یہ کہتے ہیں کہ دھرتی ہے کہاں