یہ مری بزم نہیں ہے لیکن
دل لگا ہے تو لگا رہنے دو
جانے والوں کی طرف مت دیکھو
رنگ محفل کو جما رہنے دو
ایک میلہ سا مرے دل کے قریب
آرزوؤں کا لگا رہنے دو
ان پہ پھایا نہ رکھو مرہم کا
میرے زخموں کو ہرا رہنے دو
دوستانہ ہے شکستہ جس سے
اس کو سینے سے لگا رہنے دو
ہوش میں ہے تو زمانہ سارا
مجھ کو دیوانہ بنا رہنے دو
جب چلو راہ حقیقت پہ کوئی
خواب آنکھوں میں بسا رہنے دو
دل کے پانی میں اتارو مہتاب
اس پیالے کو بھرا رہنے دو
غزل
یہ مری بزم نہیں ہے لیکن (ردیف .. و)
آصف رضا