یہ مرا بجھتا سلگتا سن یہ میرے رات دن
کس طرح کٹتے بھلا تجھ بن یہ میرے رات دن
بیتے ساون کہہ رہے ہیں یہ چھما چھم تھے کبھی
اب تو ہیں گویا فقط کن من یہ میرے رات دن
میں نے ارمانوں کا پہلا رقص دیکھا تھا جہاں
کاش ہو جاتے وہیں ساکن یہ میرے رات دن
ڈھونڈ لاتے ہیں ہمیشہ میرے جرموں کا جواز
یہ مرے سب سے بڑے محسن یہ میرے رات دن
تو سمجھتا ہے جدا خود کو اگر مجھ سے تو پھر
سینکڑوں سے ضرب دے کر گن یہ میرے رات دن
ڈر رہا ہوں عمر کی ناپائیداری سے قتیلؔ
وقت کے ہاتھوں نہ جائیں چھن یہ میرے رات دن
غزل
یہ مرا بجھتا سلگتا سن یہ میرے رات دن
قتیل شفائی