EN हिंदी
یہ میں ہوں اور یہ اصنام میرے | شیح شیری
ye mein hun aur ye asnam mere

غزل

یہ میں ہوں اور یہ اصنام میرے

محشر بدایونی

;

یہ میں ہوں اور یہ اصنام میرے
انہیں جو نام دو سب نام میرے

ہے ان کی روشنی مجھ سے بھی آگے
میں اچھا مجھ سے اچھے کام میرے

نہ کر تو بات مجھ سے موسموں کی
یہ موسم صبح تیرے شام میرے

دکان خواب میں چہرہ نگر ہوں
کوئی شاید چکا دے دام میرے

تمناؤں کے زخم ایذاؤں کے زخم
یہی کچھ زخم ہیں انعام میرے

میں کیا ورثے میں دوں آئندگاں کو
بس ان کے نام ہیں پیغام میرے