یہ مت کہو کہ بھیڑ میں تنہا کھڑا ہوں میں
ٹکرا کے آبگینے سے پتھر ہوا ہوں میں
آنکھوں کے جنگلوں میں مجھے مت کرو تلاش
دامن پہ آنسوؤں کی طرح آ گیا ہوں میں
یوں بے رخی کے ساتھ نہ منہ پھیر کے گزر
اے صاحب جمال ترا آئنا ہوں میں
یوں بار بار مجھ کو صدائیں نہ دیجئے
اب وہ نہیں رہا ہوں کوئی دوسرا ہوں میں
میری برائیوں پہ کسی کی نظر نہیں
سب یہ سمجھ رہے ہیں بڑا پارسا ہوں میں
وہ بے وفا سمجھتا ہے مجھ کو اسے کہو
آنکھوں میں اس کے خواب لیے پھر رہا ہوں میں
غزل
یہ مت کہو کہ بھیڑ میں تنہا کھڑا ہوں میں
عزم شاکری