یہ مت بھلا کہ یہاں جس قدر اجالے ہیں
یہ آدمی نے اندھیروں سے ہی نکالے ہیں
نہ پوچھ کیوں ہے یہ رنگ غزل میں تبدیلی
یہ دیکھ سینۂ شاعر میں کتنے چھالے ہیں
لباس صبر و تحمل جو ہم ہیں پہنے ہوئے
اب اس کے لگتا ہے بخیے ادھڑنے والے ہیں
توقعات وہی آج بھی ہیں یاروں سے
کہ اب بھی یار سبھی آستین والے ہیں
خموش کانپتے مہرے لرز رہا ہے بساط
نہ جانے کون سی وہ چال چلنے والے ہیں
یہ کیا ستم ہے کہ ان کو بھی میں بڑا لکھوں
جو لوگ آج بڑے کاروبار والے ہیں
خدا کرے کہ سعادتؔ تمہیں سجھائی دیں
جو میرے شعروں میں مفہوم کے اجالے ہیں

غزل
یہ مت بھلا کہ یہاں جس قدر اجالے ہیں
سعادت باندوی