EN हिंदी
یہ میں بھی کیا ہوں اسے بھول کر اسی کا رہا | شیح شیری
ye main bhi kya hun use bhul kar usi ka raha

غزل

یہ میں بھی کیا ہوں اسے بھول کر اسی کا رہا

احمد فراز

;

یہ میں بھی کیا ہوں اسے بھول کر اسی کا رہا
کہ جس کے ساتھ نہ تھا ہم سفر اسی کا رہا

وہ بت کہ دشمن دیں تھا بقول ناصح کے
سوال سجدہ جب آیا تو در اسی کا رہا

ہزار چارہ گروں نے ہزار باتیں کیں
کہا جو دل نے سخن معتبر اسی کا رہا

بہت سی خواہشیں سو بارشوں میں بھیگی ہیں
میں کس طرح سے کہوں عمر بھر اسی کا رہا

کہ اپنے حرف کی توقیر جانتا تھا فرازؔ
اسی لیے کف قاتل پہ سر اسی کا رہا