یہ مانا زندگی میں غم بہت ہیں
ہنسے بھی زندگی میں ہم بہت ہیں
تری زلفوں کو کیا سلجھاؤں اے دوست
مری راہوں میں پیچ و خم بہت ہیں
نہیں ہے منحصر کچھ فصل گل پر
جنوں کے اور بھی موسم بہت ہیں
غبار آلودہ چہروں پر نہ جانا
انہیں میں کیقباد و جم بہت ہیں
مجھے کچھ ساز ہے نشتر سے ورنہ
مرے زخموں کے یاں مرہم بہت ہیں
قفس یہ جان کر توڑا تھا میں نے
قفس کو توڑ کر بھی غم بہت ہیں
کروں کیا چارہ ان آنکھوں کا میکشؔ
کہ ان کے سامنے پر نم بہت ہیں

غزل
یہ مانا زندگی میں غم بہت ہیں
میکش اکبرآبادی