EN हिंदी
یہ ماہتاب یہ سورج کدھر سے آئے ہیں | شیح شیری
ye mahtab ye suraj kidhar se aae hain

غزل

یہ ماہتاب یہ سورج کدھر سے آئے ہیں

مستحسن خیال

;

یہ ماہتاب یہ سورج کدھر سے آئے ہیں
یہ کون لوگ ہیں یہ کس نگر سے آئے ہیں

یہی بہت ہے مری انگلیاں سلامت ہیں
یہ دل کے زخم تو عرض ہنر سے آئے ہیں

بہت سے درد مداوا طلب تھے پہلے بھی
اب اور زخم مرے چارہ گر سے آئے ہیں

گرا دیا ہے جسے آندھیوں کے زور نے کل
یہ خوش نوا اسی بوڑھے شجر سے آئے ہیں

رکے نہیں ہیں کہیں قافلے تمنا کے
فراز دار یہ لمبے سفر سے آئے ہیں

ہم اپنے آپ کو کچھ اجنبی سے لگتے ہیں
کہ جب سے لوٹ کر اس کے نگر سے آئے ہیں

ہر ایک خط میں نگینے جڑے ہیں میں نے خیالؔ
بہت سے لفظ مری چشم تر سے آئے ہیں