یہ لوٹ مار یہ دہشت بھری فضا کیا ہے
یہ کیسا دور ہے یا رب ہمیں ہوا کیا ہے
اسی نے آگ لگائی ہے ساری بستی میں
وہی یہ پوچھ رہا ہے کہ ماجرا کیا ہے
یہ تیرا ظرف کہ تو پھر بھی بد گماں نہ ہوا
سوائے درد کے میں نے تجھے دیا کیا ہے
ٹپک کے چھین لے حق اپنا بد لحاظوں سے
بڑھا کے ہاتھ اٹھا جام دیکھتا کیا ہے
بھلا دیا ہے جو تو نے تو کوئی بات نہیں
مگر میں جانتا آخری مری خطا کیا ہے
عجیب شخص ہے کردار مانگتا ہے مرا
سوائے اس کے مرے پاس اب بچا کیا ہے
کرید کر مرے زخموں کو یوں سوال نہ کر
تجھے خبر ہے تو پھر مجھ سے پوچھتا کیا ہے
متاع غم کو بچا رکھ چھپا کے سینے میں
تو اس خزانے کو اوروں میں بانٹتا کیا ہے
ہزار نعمتیں اس نے تجھے عطا کی ہیں
اب اور چاندؔ تو اس در سے مانگتا کیا ہے
غزل
یہ لوٹ مار یہ دہشت بھری فضا کیا ہے
مہندر پرتاپ چاند

