EN हिंदी
یہ لمحہ زیست کا ہے بس آخری ہے اور میں ہوں | شیح شیری
ye lamha zist ka hai bas aaKHiri hai aur main hun

غزل

یہ لمحہ زیست کا ہے بس آخری ہے اور میں ہوں

کرشن بہاری نور

;

یہ لمحہ زیست کا ہے بس آخری ہے اور میں ہوں
ہر ایک سمت سے اب واپسی ہے اور میں ہوں

حیات جیسے ٹھہر سی گئی ہو یہ ہی نہیں
تمام بیتی ہوئی زندگی ہے اور میں ہوں

میں اپنے جسم سے باہر ہوں اور ہوش بھی ہے
زمیں پہ سامنے اک اجنبی ہے اور میں ہوں

وہ کوئی خواب ہو چاہے خیال یا سچ ہو
فضا میں اڑتی ہوئی چاندنی ہے اور میں ہوں

کسی مقام پہ رکنے کو جی نہیں کرتا
عجیب پیاس عجب تشنگی ہے اور میں ہوں

اکیلا عشق ہے ہجر و وصال کچھ بھی نہیں
بس ایک عالم دیوانگی ہے اور میں ہوں

نہ لفظ ہے نہ صدا پھر بھی کیا نہیں واضح
کلام کرتی ہوئی خامشی ہے اور میں ہوں

سرور و کیف کا عالم حدوں کو چھوتا ہوا
خودی کا نشہ ہے کچھ آگہی ہے اور میں ہوں

مقابل اپنے کوئی ہے ضرور کون ہے وہ
بساط دہر ہے بازی بچھی ہے اور میں ہوں

جہاں نہ سکھ کا احساس اور نہ دکھ کی کسک
اسی مقام پہ اب شاعری ہے اور میں ہوں

مرے وجود کو اپنے میں جذب کرتی ہوئی
نئی نئی سی کوئی روشنی ہے اور میں ہوں

جو چند لمحوں میں گزرا بتا دیا سب کچھ
پھر اس کے بعد وہی زندگی ہے اور میں ہوں