یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی
فرازؔ تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی
یہ قرب کیا ہے کہ تو سامنے ہے اور ہمیں
شمار ابھی سے جدائی کی ساعتیں کرنی
کوئی خدا ہو کہ پتھر جسے بھی ہم چاہیں
تمام عمر اسی کی عبادتیں کرنی
سب اپنے اپنے قرینے سے منتظر اس کے
کسی کو شکر کسی کو شکایتیں کرنی
ہم اپنے دل سے ہی مجبور اور لوگوں کو
ذرا سی بات پہ برپا قیامتیں کرنی
ملیں جب ان سے تو مبہم سی گفتگو کرنا
پھر اپنے آپ سے سو سو وضاحتیں کرنی
یہ لوگ کیسے مگر دشمنی نباہتے ہیں
ہمیں تو راس نہ آئیں محبتیں کرنی
کبھی فرازؔ نئے موسموں میں رو دینا
کبھی تلاش پرانی رفاقتیں کرنی
غزل
یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی
احمد فراز