یہ کیا خبر تھی کہ جب تم سے دوستی ہوگی
قدم قدم پہ قیامت سی اک کھڑی ہوگی
وہاں پہ گونجتی ہوگی خوشی کی شہنائی
یہاں تو میت ارمان اٹھ رہی ہوگی
جو بے خبر ہے ابھی تک خود اپنی منزل سے
تو ایسے خضر سے کس طرح رہبری ہوگی
بنا کے خاک سے خود خاک میں ملا دینا
الٰہی تیری شریعت میں کچھ کمی ہوگی
شب فراق رقیب آ کے دے مجھے تسکیں
قسم خدا کی یہ سازش بھی آپ کی ہوگی
جگر کے خون سے تر ہو نہ جس کا شعر کوئی
پھر اس غزل میں بھلا خاک دل کشی ہوگی
جمالؔ چھوٹ ہی جائے گا ضبط کا دامن
کمال جور میں ان کے اگر کمی ہوگی

غزل
یہ کیا خبر تھی کہ جب تم سے دوستی ہوگی
ہربنس لال انیجہ جمالؔ