EN हिंदी
یہ کیا ہوا کہ ہر اک رسم و راہ توڑ گئے | شیح شیری
ye kya hua ki har ek rasm-o-rah toD gae

غزل

یہ کیا ہوا کہ ہر اک رسم و راہ توڑ گئے

صادق اندوری

;

یہ کیا ہوا کہ ہر اک رسم و راہ توڑ گئے
جو میرے ساتھ چلے تھے وہ ساتھ چھوڑ گئے

وہ آئنہ جنہیں ہم سب عزیز رکھتے تھے
وہ پھینکے وقت نے پتھر کہ توڑ پھوڑ گئے

ہمارے بھیگے ہوئے دامنوں کی شان تو دیکھ
فلک سے آئے ملک اور گنہ نچوڑ گئے

بپھرتی موجوں کو کشتی نے روند ڈالا ہے
خوشا وہ عزم کہ طوفاں کا زور توڑ گئے

رہے گی گونج ہماری تو ایک مدت تک
ہمارے شعر کچھ ایسے نقوش چھوڑ گئے

ان آئے دن کے حوادث کو کیا کہوں صادقؔ
مری طرف ہی ہواؤں کا رخ یہ موڑ گئے