یہ کیا ہوا ہے رات کو کیونکر نڈھال ہے
میری ہی طرح چاند فلک پر نڈھال ہے
دیوار و در نے رنگوں سے دامن چھڑا لیا
یک رنگئ سکوت سے کیوں گھر نڈھال ہے
اس سے ہزار دریا لپٹنے کو منتظر
پھر کس کے انتظار میں ساگر نڈھال ہے
باہر نکل کے دیکھ تری آرزو میں کوئی
کب سے پڑا ہوا ترے در پر نڈھال ہے
اب کون پوچھتا ہے اسے اس دیار میں
سجدہ گزار کوئی نہیں در نڈھال ہے
ثانیؔ ہمارا حال یوں پہلے نہ تھا کبھی
باہر ہے خست خست تو اندر نڈھال ہے
غزل
یہ کیا ہوا ہے رات کو کیونکر نڈھال ہے
مہندر کمار ثانی