یہ کیا انداز ہیں دست جنون فتنہ ساماں کے
اڑائے جا رہے ہیں چاک کیوں صحرا کے داماں کے
ابھی تم نے نہیں دیکھے شرارے آہ سوزاں کے
ابھی شعلے کہاں بھڑکے ہیں دل میں درد پنہاں کے
حوادث کی ہواؤں نے گھٹا دی لو محبت کی
دیئے مدھم سے ہوتے جا رہے ہیں بزم جاناں کے
وفا کے گل ہی وہ گل ہیں کہ جو دائم مہکتے ہیں
وگرنہ یہ کہاں ہے بات پھولوں میں گلستاں کے
جلاؤ خون دل محفل میں جب کچھ روشنی ہوگی
اندھیرا ہر طرف چھایا ہوا ہے بزم جاناں کے
گلوں سے تازگی پھولوں سے رنگت ہو گئی رخصت
صبا نے کان میں کیا کہہ دیا فصل بہاراں کے
انہیں بھی شمسؔ کی حالت پہ رحم آ ہی گیا آخر
نہ دیکھے جا سکے پیہم مظالم چرخ گرداں کے

غزل
یہ کیا انداز ہیں دست جنون فتنہ ساماں کے
شمس اٹاوی