یہ کس نے بھرم اپنی زمیں کا نہیں رکھا
ہم جس کے رہے اس نے کہیں کا نہیں رکھا
دیکھا کہ ابھی روح میں فریاد کناں ہے
سجدہ جسے پابند جبیں کا نہیں رکھا
افسوس کہ انکار کی منزل نہیں آئی
ہر چند کہ در بند نہیں کا نہیں رکھا
اور اپنی طرح کے یہاں سالک ہیں کئی اور
ہر شخص پر الزام یقیں کا نہیں رکھا
گلزار کھلائے جہاں بازار لگائے
ہم خاک نشینوں کو وہیں کا نہیں رکھا
ایک ایسی قناعت ہے طبیعت میں کہ جس نے
محتاج ہمیں نان جویں کا نہیں رکھا
اس گھر کے مقدر میں تباہی نہ لکھی ہو
وہ جس نے خیال اپنے مکیں کا نہیں رکھا

غزل
یہ کس نے بھرم اپنی زمیں کا نہیں رکھا
ساقی فاروقی