EN हिंदी
یہ کس نے بھرم اپنی زمیں کا نہیں رکھا | شیح شیری
ye kis ne bharam apni zamin ka nahin rakkha

غزل

یہ کس نے بھرم اپنی زمیں کا نہیں رکھا

ساقی فاروقی

;

یہ کس نے بھرم اپنی زمیں کا نہیں رکھا
ہم جس کے رہے اس نے کہیں کا نہیں رکھا

دیکھا کہ ابھی روح میں فریاد کناں ہے
سجدہ جسے پابند جبیں کا نہیں رکھا

افسوس کہ انکار کی منزل نہیں آئی
ہر چند کہ در بند نہیں کا نہیں رکھا

اور اپنی طرح کے یہاں سالک ہیں کئی اور
ہر شخص پر الزام یقیں کا نہیں رکھا

گلزار کھلائے جہاں بازار لگائے
ہم خاک نشینوں کو وہیں کا نہیں رکھا

ایک ایسی قناعت ہے طبیعت میں کہ جس نے
محتاج ہمیں نان جویں کا نہیں رکھا

اس گھر کے مقدر میں تباہی نہ لکھی ہو
وہ جس نے خیال اپنے مکیں کا نہیں رکھا