EN हिंदी
یہ کس کو جاگ جاگ کے تاروں کی چھاؤں میں | شیح شیری
ye kis ko jag jag ke taron ki chhanw mein

غزل

یہ کس کو جاگ جاگ کے تاروں کی چھاؤں میں

رشید کوثر فاروقی

;

یہ کس کو جاگ جاگ کے تاروں کی چھاؤں میں
ہم مانگتے ہیں پچھلے پہر کی دعاؤں میں

کرنیں ابھی تو گم ہیں گھنیری گھٹاؤں میں
بہہ جائیں گی گھٹائیں کہ کرنیں ہواؤں میں

جنت کو دور دور تو ڈھونڈا گیا مگر
قدموں تلے نہ ماں کے نہ تیغوں کی چھاؤں میں

خشکی کے رہبروں سے تو یہ بھی نہ ہو سکا
کچھ تو خدا کا نام چلا ناخداؤں میں

یارب قفس ہے یا کہ چمن کیا ہے یہ جہاں
الجھے پڑے ہیں پھول کٹیلی لتاؤں میں

دیوانہ مست حال ہے اس کو خبر کہاں
جھانجھن پڑی ہوئی ہے کہ زنجیر پاؤں میں

دونوں کو اپنے دیس کی مٹی پہ ناز ہے
سانپوں کی بانبیاں بھی ہیں پھولوں کے گاؤں میں

سب چل پڑیں جو خلد کو جاتی ہو کوئی راہ
گل مہر کی دو رویہ قطاروں کی چھاؤں میں

ہم شیخ سے یہ کہہ کے سوئے دیر چل دیے
رکھیے گا یاد ہم کو بھی اپنی دعاؤں میں