یہ کس کی یاد کا دل پر رفو تھا
کہ بہہ جانے پہ آمادہ لہو تھا
چمکتے ہیں جو پتھر سے یہاں اب
انہیں پلکوں میں سیل آب جو تھا
کشش تجھ سی نہ تھی تیرے غموں میں
لب و لہجہ مگر ہاں ہو بہ ہو تھا
اجالے سی کوئی شے بچ گئی تھی
اس اک لمحے میں جب میں تھا نہ تو تھا
تھمی اک نبض تو عقدہ کھلا یہ
خموشی کا سراپا ہا و ہو تھا
ملے اب کے تو روئے ٹوٹ کر ہم
گناہ اپنی سزا کے رو بہ رو تھا
کبھی خوشبو ہوا کرتے تھے ہم بھی
کبھی قصہ ہمارا کو بہ کو تھا
غزل
یہ کس کی یاد کا دل پر رفو تھا
بکل دیو