یہ کس کا جلوۂ حیرت فزا نگاہ میں ہے
کہ پائے شوق گزر گاہ مہر و ماہ میں ہے
ہزار منزل راہ جنوں تمام ہوئی
ہزار منزل اہل جنوں نگاہ میں ہے
بلندیوں سے گزر کر خرد کا حال نہ پوچھ
بس اک غبار تحیر لیے نگاہ میں ہے
عزیز تر تری باتیں کہ اس سکوت کے ساتھ
تمام شوخیٔ لفظ و بیاں نگاہ میں ہے
فروغ جلوۂ امید تیری عمر دراز
سیاہ رات ہے سر پر سحر نگاہ میں ہے
کس اہتمام سے ہے آمد عروس سحر
کہ آہٹوں کا ترنم تمام راہ میں ہے
کہاں ہے تاب نظر اہل دل کی محفل میں
کسے مجال سخن ان کی بارگاہ میں ہے
غزل
یہ کس کا جلوۂ حیرت فزا نگاہ میں ہے
شکور جاوید