یہ کس دیار کے ہیں کس کے خاندان سے ہیں
اسیر ہو کے بھی جو لوگ اتنی شان سے ہیں
ملے عروج تو مغرور مت کبھی ہونا
بلندیوں کے سبھی راستے ڈھلان سے ہیں
تم اپنے اونچے محل میں رہو مگر سوچو
تمہارے سائے میں کچھ لوگ بے نشان سے ہیں
زمین کرب کی ہر فصل کا جو مالک ہے
ہمارے درد کے رشتے اسی کسان سے ہیں
مہک رہے ہیں گل زخم آرزو ہر پل
مری حیات کے سب رنگ زعفران سے ہیں
سنا رہے ہیں وہی داستان ظلم و ستم
ہماری آنکھ میں آنسو جو بے زبان سے ہیں
کہاں تک آپ چھپائیں گے داستان ستم
کتاب جسم پہ اب بھی کئی نشان سے ہیں
یہ کون تجھ کو بچائے ہے ہر بلا سے رضاؔ
یہ کس کے ہاتھ ترے سر پہ آسمان سے ہیں

غزل
یہ کس دیار کے ہیں کس کے خاندان سے ہیں
رضا مورانوی