یہ خواب اور بھی دیکھیں گے رات باقی ہے
ابھی تو اے دل زندہ حیات باقی ہے
مرے لہو میں ابھی ترک عشق کے با وصف
وہ گرمیٔ نگہہ التفات باقی ہے
ابھی تو ذوق طلب میں کمی نہیں آئی
ابھی مرا سفر بے جہات باقی ہے
جو ہو سکے تو شہادت گہ نظر میں آ
یہ دیکھ عشق میں کتنا ثبات باقی ہے
یہ کائنات ابھی ایک انتظار میں ہے
کہ ہونے والی کوئی واردات باقی ہے
خود اپنی راکھ سے تو جی اٹھے شرر کی طرح
یہ معجزہ ابھی اے کائنات باقی ہے
شب وصال میں دن بھی ملا نہ لیں اے دوست
کہ رات ختم ہوئی اور بات باقی ہے
ہوئی ہے شاخ ہنر میں نئی نمو اب کے
سلیمؔ برگ خزاں سے نجات باقی ہے

غزل
یہ خواب اور بھی دیکھیں گے رات باقی ہے
سلیم احمد