یہ خلق ساری ہوا میرے نام کر دے گی
مرے چراغوں کا جینا حرام کر دے گی
سنا ہے دھوپ کو گھر لوٹنے کی جلدی ہے
وہ آج وقت سے پہلے ہی شام کر دے گی
کچھ اور دیر جو ٹھہرا میں اس کی آنکھوں میں
تو چاند تاروں کو میرا غلام کر دے گی
میں اپنے دور سے بد ظن ہوں ابتدا تو کروں
کہ اگلی نسل مرا باقی کام کر دے گی
پھر اس کے بعد وہ مجھ سے لپٹ کے روئے گی
سفر کا ٹھیک سے سب انتظام کر دے گی
خریدنے سے تو بہتر ہے اس کو مانگ ہی لوں
وگرنہ اونچے بہت اپنے دام کر دے گی
بتاؤ اس میں بھی اس کا کوئی خسارہ ہے
وہ شہر خواب ابھی میرے نام کر دے گی

غزل
یہ خلق ساری ہوا میرے نام کر دے گی
سردار آصف