یہ کرب کا احساس مسلسل مرے اللہ
کر دے گا کسی دن مجھے پاگل مرے اللہ
بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو سمیٹوں بھی کہاں تک
کس طرح کروں خود کو مکمل مرے اللہ
ہر ذہن جہالت کے اندھیروں کا ہے مسکن
ہر ہاتھ میں ہے علم کی مشعل مرے اللہ
لاشوں کے ہر ایک شہر میں بازار سجے ہیں
ہر موڑ پہ ہے اک نیا مقتل مرے اللہ
حالات سے ہوں برسر پیکار ابھی تک
گو جسم میں باقی نہیں کس بل مرے اللہ
میلوں نہیں آثار کوئی دشت یقیں کے
ہر سمت ہے تشکیک کی دلدل مرے اللہ
سرمایہ و اسباب جسے چاہے اسے دے
راہیؔ کو بس اک صبر و توکل مرے اللہ
غزل
یہ کرب کا احساس مسلسل مرے اللہ
محبوب راہی